کتاب کا نام ” راگنی کی کھوج میں” مجھے کچھ عجیب سا لگا، اردو کانفرنس کی تیاریوں کے سلسلے میں ہر دوسرے روز احمد شاہ صاحب صدر آرٹس کونسل کراچی، مبین مرزا صاحب، ڈاکٹر فاطمہ حسن اور مجھے اپنے آفس بلالیتے، شاہ صاحب کے ساتھ کام کرنے کے لئے آدمی کو چلنا نہیں دوڑنا پڑتا ہے۔ تیرھویں اردو کانفرنس روزانہ ایک نئے روپ میں سامنے آرہی تھی۔ کووڈ 19 وائرس کی وجہ سے اسے جسمانی طور پر محدود لیکن سوشل میڈیا کے ذریعے لامحدود کردیا گیا تھا۔ ایسی ہی ایک میٹنگ میں کتابوں کی رونمائی کے سیشن میں مبین مرزا صاحب نے “راگنی کی کھوج میں” کی رونمائی کا ذکر کیا اور طے یہ پایا کہ نجیبہ عارف کی لکھی ہوئی اس کتاب پر یاسمین حمید صاحبہ بات کریں گی۔
اردو کانفرنس کا میلہ سج گیا۔ ہم سب یہ سوچ رہے تھے کہ 2020ء کا سال ہم سے اردو کانفرنس کی رونق بھی لے اڑا لیکن شاہ صاحب اور انکی ٹیم کی محنتیں رنگ لائیں تیرھویں اردو کانفرنس ہوئی اور خوب جم کے ہوئی۔ گزشتہ 12کانفرنسوں تک اس کے شرکاء ہزاروں میں ہونے تھے لیکن اس سال سوشل میڈیا کی وجہ سے یہ تعداد ساری دنیا میں کہ جہاں جہاں اردو بولی جاتی ہے لاکھوں میں پہنچ گئی۔
کانفرنس کے تیسرے روز یاسمین حمید صاحبہ نے آن لائن” راگنی کی کھوج میں” کے بارے میں بڑی مفصل گفتگو کی، سادہ اور دل نشیں انداز میں نپی تلی بات کرنا یاسمین حمید صاحبہ کو اہل ادب میں ممتاز کرتا ہے۔ کتاب اور اس کی مختلف جہات کا ذکر یاسمین حمید صاحبہ نے جس طرح اپنی گفتگو میں کیا وہ سن کر کتاب پڑھنے کا شوق دوچند ہوگیا۔ احمد شاہ صاحب کے پاس کتاب دیکھی تو کہا شاہ صاحب میں لےجارہا ہوں جواب آیا پڑھ کر واپس لے آنا، بہت اچھی کتاب ہے۔
میں نجیبہ عارف سے کبھی نہیں ملا، گوکہ گزشتہ سال آپ اردو کانفرنس میں تشریف لائیں تھیں لیکن آپ سے ملاقات نہیں ہوسکی۔ محترم محمد عبید اللہ درانی صاحب کہ جن کا وصال نجیبہ سے ان کی واقفیت سے پہلے ہوچکا تھا، اس صاحب اسرار کو جاننے کے لئے یہ کتاب لکھی گئی۔ میں محمد عبیداللہ درانی صاحب سے واقف نہیں ہوں لیکن کتاب میں ایک جگہ حسن اختر صاحب کا ذکر پڑھا کہ وہ درانی صاحب کے بہت قریب تھے، میری ملاقات تو حسن اختر صاحب سے بھی نہیں ہوئی لیکن ان کی عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے گندھی ہوئی کئی کتب کو پڑھنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر جس محبت بھرے اور عشق مصطفی سے لبریز انداز میں کرتے ہیں وہ پڑھنے کی چیز ہے ان ہی کتب میں درانی صاحب کا ذکر بھی ملتا ہے۔ حسن اختر صاحب کے صاحبزادے عبید حسن اختر میرے دوست ہیں،عبید حسن اختر سے بات ہوئی تو پتہ چلا کہ کہ حسن اختر صاحب کو تو پالا ہی درانی صاحب نے تھا اور وہ 5 سال کی عمر سے انکے ساتھ تھے۔
یہ کتاب کیا ہے، ایک دنیا کی دریافت ہے گرو کی تلاش اس کے راستے کی تلاش اس کتاب کا موضوع ہے، ایک ایسی دنیا کے جو ہمارے سامنے، ہمارے جیسے انسانوں نے قائم کی ہوئی ہے کہ جس دنیا کے باشندے محبت کے سفیر ہیں کہ جو لوگ بھی اس سلسلہ سے منسلک ہیں وہ محبت اور سلوک کے لوگ ہیں یہ روایتی پیر پرستی یا حضرت کے کشف و کرامات بتانے کی کتاب نہی ہے بلکہ دلوں کو روشن کرنے اور زندگیوں کو تبدیل کرنے والے کا ذکر ہے کہ کس طرح ایک مغربی تعلیم یافتہ شخص نے ہزاروں افراد کی زندگیوں کو یکسر تبدیل کردیا۔
اس کتاب میں نجیبہ عارف صاحبہ کے والد والدہ کا ذکر ہے کہ جو دو متضاد سمتوں کے مسافر ہیں لیکن اپنی اپنی سمت کے لئے مکمل یکسو ہیں، یہاں ہمیں اہل سلوک اور اہل خدمت کا ذکر ملتا ہے کہ جو خلق خدا کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں لیکن روایتی بابوں کی طرح نہی بلکہ زندگی کے حقیقی کردار جو اپنی دنیوی زندگیوں میں بھی بہت کامیاب ہیں وہ کس طرح اہل سلوک اور اہل خدمت بنے ہیں۔ اس کا ذکر نجیبہ عارف کے باباجی کے الفاظ میں “تصوف کے راستے پر چلنے کے لئے سب سے پہلے “میں ” کے پلے پلائے دنبے کو قربان کرنا پڑتا ہے۔
” سادہ الفاظ، سلامت اور روانی سے ادا کئے گئے جملے کہ جن میں کوئی ٹیڑھ نہیں ہے، کوئی رنگین بیانی نہیں ہے کسی جگہ تعریفوں کا طومار نہی ہے، ہر بات کھلی کھلی، سچی سچی، حقیقت یہ ہے کہ کہ اس کتاب کو اگر خودنوشت کہا جائے تو یہ اس کی تعریف سے آگے ہے۔ اس میں ایک اچھے ناول کی سی تازگی اور حسن بیان پایا جاتا ہے۔ بہت بہت شکریہ نجیبہ عارف اتنی اچھی کتاب لکھنے کا، ہم توقع کرتے ہیں کہ آپ مزید ہمیں بابا جی محمد عبیداللہ درانی صاحب کی اس محبت بھری دنیا کے بارے میں بتاتی رہیں گی۔