کیا پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے جارہا ہے؟ حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے عمران خان دو ٹوک الفاظ میں تردید کر چکے ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔
کسی قومی معاملے کے بارے میں سربراہ حکومت کی تردید مؤثر ہونی چاہئے اور یہ سوال بار بار نہیں اٹھنا چاہیے کہ اسرائیل کے بارے میں حکومت کی سوچ کیا ہے لیکن دو معاملات ایسے ہیں جن کی وجہ سے عمران خان کی تردید کے باوجود اس معاملے میں الجھن موجود ہے، اس کی ایک وجہ اس حکومت اور اس کے سربراہ کا وہ طرز عمل ہے، عوام کو گزشتہ ڈھائی تین برس میں جس کا بار بار تجربہ ہوا، یعنی ایک بات کہہ کر اس کے بالکل مخالف سمت میں گامزن ہو جانا، پاکستان کے سیاسی ماحول میں اسے نہایت شائستہ الفاظ میں ‘یوٹرن’ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس لیے عوام یہ خدشہ محسوس کرتے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے واضح اعلان کے باوجود کیا معلوم کس وقت یہ حکومت اپنی رائے بدل لے؟ اس سلسلے میں عوام کے سامنے کشمیر کی مثال موجود ہے جس کے بارے میں حکومت نے آتے ہی بڑے بلند بانگ دعوے کیے۔ پھر اسی دور میں بھارت نے کشمیر کی قانونی حیثیت تبدیل کر دی۔ مسئلہ کشمیر کے ضمن گزشتہ پون صدی میں بھارت کو کبھی اتنا انتہائی قدم اٹھانے کی جرات نہیں ہوئی جتنی اس دور میں ہوئی ہے۔
بھارت نے اپنے ان غیر قانونی اقدامات کے حق میں عالمی حمایت کے حصول کے لیے بھرپور سفارتی مہم چلائی۔ اس کے جواب میں ہماری سفارتی مہم ٹیلی فون رابطوں پر ہی مشتمل رہی۔ عمران خان اور وزیر خارجہ نے چند روز ٹیلی فون روابط کیے، اس کے بعد یہ نیم دلانہ سلسلہ بھی ختم کر دیا گیا۔
پاکستانی عوام کی تشویش کا حل ان کے پاس یہ تھا کہ ہر جمعے کو اپنی قیادت میں احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا، دو ایک مظاہرے ہوئے، آج کسی کو یاد بھی نہیں کہ کبھی کوئی کشمیر بھی ہوتا تھا۔
اسرائیل کے ضمن میں عوام کی حکومت سے بدگمانی کی ایک وجہ تو یہ ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ صحافی اور اینکرز جو گزشتہ کئی برسوں سے پی ٹی آئی اور اس حکومت کے بلند آہنگ وکیل بنے ہوئے ہیں، اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں بڑی جارحانہ مہم چلا رہے ہیں۔ اس سے خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب بلاوجہ نہیں ہو رہا، کوئی نہ کوئی ہے، اس پردہ زنگاری میں۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے دورہ سعود عرب کے بعد عوام کی تشویش میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔
اس پس منظر میں ضروری ہے کہ حکومت اور تمام متعلقہ ریاستی ادارے اس سلسلے دوٹوک اعلان کر کے عوام کو مطمئن کریں، ایسا نہ ہونے کی صورت میں ملک کے ایک بہت بڑے بحران میں پھنس جانے کا اندیشہ ہے۔