اقبالؒ سے مجھے اس چھتنار درخت کی یاد آتی ہے جس کے سائے میں بیٹھ کر میں سلطنت افکار و خیال اس بادشاہ کو پہچانا۔ اس اقبالؒ سے تو میں واقف تھا جو کشمیری شال اوڑھے، مٹھی پر سر ٹکائے غور و فکر میں مصروف نظر آتے ہیں لیکن وہ اقبال جو میرے بوڑھے والد کے رگ وپے میں مشک بو تھا، اس سے میں نا واقف تھا۔
میرے والد گزشتہ صدی کی پہلی دہائی کے ذرا بعد پیدا ہوئے تھے۔وہ اخبار کا زمانہ تھا لیکن کہیں کہیں ریڈیو کی آواز بھی سنائی دے جاتی اور پھر دیر تک اس کے تذکرے ہواکرتے۔ کوئی ایسا ہی دن رہا ہو گا جب اس آلے سے ایک خبر نشر ہوئی اور اُن کے کان میں پڑی۔ کہنے کو تو وہ ایک خبر تھی مگر فی الاصل بد خبری تھی۔ یہ سننے اور سن کر ہضم کرنے کا یارا کس میں تھا کہ شاعرِ مشرق اور مفکر اسلام علامہ محمد اقبالؒ اس دارِ فانی سے کوچ فرما گئے۔ اس وحشت اثر خبر کے زیر اثر انھوں نے لاہور جانے کا فیصلہ کر لیا کہ وقت کے عبقری کا آخری دیدار کریں اور الوداعی دعاﺅں میں اپنی دعا کا حصہ بھی ڈال دیں۔ نوعمر کا ارادہ دیکھ کر ایک اور بزرگ بھی کمر بستہ ہو گئے مگر اس شرط کے ساتھ کہ اس موقع پر وہ سوگواروں کو اپنے خطاب سے بھی سرفراز فرمائیں گے، یوں اختلاف پیدا ہو ا اور بنا بنایا پروگرام چوپٹ ہوگیا۔ اب یہ صدمہ دو آتشہ تھا، اوّل حکیم الامت کی رحلت اور دوم ، ان کے جنازے میں عدم شرکت۔ اس محرومی نے مہمیز دی اورانھوں نے خود کو مطالعہ اقبالؒ کے لیے وقف کر لیا، اس لیے عمر کے آخری حصے میں وہ چاہتے تھے کہ آنکھیں بند ہونے سے پہلے اپنا عشق اولاد میں بھی منتقل کر جائیں۔
وضو کے بعد وہ آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتے، پورے جذبے کے ساتھ تحت اللفظ شعر پڑھتے پھر اس کی تفسیر بیان کرتے، اس دوران پہلے اُن کی آواز بھرآتی، پھر آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے۔ کیسے بے پناہ اقبالؒ کے شعر تھے اورکیسا بے بدل اُن کے مفسّر کا لہجہ ؎
تجھ سے سرکش ہوا کوئی توبگڑ جاتے تھے
تیغ کیا چیز ہے ، ہم توپ سے لڑ جاتے تھے
توڑے مخلوق خداوندوں کے پیکر کس نے
کاٹ کے رکھ دیے کفار کے لشکر کس نے
دشت تو دشت ہے ، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
یا پھر
تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
خنجرہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا
بس ایسے ہی اشعار اور ایسی ہی باتیں تھیں جنھیں پڑھ اور سن کر ہوش کا دامن پکڑ ا ۔ تھوڑا وقت اور گزرا تو جانا کہ ان ہی افکار کی روشنی میں تو ہمارا بیانیہ بھی تر تیب پایا ہے ۔ قوم کا بیانیہ مصورِ قوم کی فکر سے مستعار لیا جائے تو یہ عین سعادت ہے مگر اس میں دو چار نازک مقام بھی آتے ہیں۔ وہ تو بھلا ہو پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار کا ، انھوں نے مجھے شاعر کبیر حضرت محمد عاکف ایر صوئے سے متعارف کرا دیا،اس کے بعد اقبالؒ کے بارے میں میرا تصور ہی بدل گیا ۔ اقبال ؒکے بارے میں میرا عمومی تاثر تو وہی تھا جو آپ، سب کا ہے کہ جیسے ”اقبالؒ “ امت ِ مرحوم کا غم کھاتے ہیں ، مسلم دنیا کے مسائل سے پریشان ہوتے ہیں ، اپنے آبا کی کتابیں غیروں کے قبضے میں دیکھ کر دل سی پارہ کر بیٹھتے ہیں اور ابنائے وطن ہی نہیں، مسلمانانِ کل عالم کو اُس گُردوں کی یاد دلاتے ہیں جس کا وہ ٹوٹا ہوا تارا تھے۔ایسی ہی کیفیت ہوتی ہے جس میں تیغوں کے سائے ، ہلالی خنجر اور بحر ہائے ظلمات کے تذکرے در آتے ہیں ۔ ہمارے ترک شاعر بھی اس سے مختلف نہیں ۔ ان دونوں بزرگوں کے افکار میں مماثلت اتنی گہری ہے کہ بدگمانی کے عارضے میں مبتلا تھڑدلے اِن پر سرقے کا الزام تو فوراً ہی عائد کر دیتے۔” زبانِ یار من“ کے مسائل نہ ہوتے تو بہت سے مہربان اب تک کئی انکشافات بھی کر چکے ہوتے۔ خیر یہ موضوع دوسرا ہے، اس وقت تو مجھے حضرت ایرصوئے کے مردِ مومن یعنی عاصم کے بارے میں کچھ کہنا ہے ۔
رشحات ِ ایرصوئے سے گزرتے ہوئے جب میں اُس نصیحت تک پہنچا جس کا مخاطب عاصم ہے تو میرے ذہن میں اپنے دیس کے مختلف گوشوں حتیٰ کہ افغانستان سمیت عالم اسلام کے حالات کی وہ تصویر ابھر آئی جس میں کچھ مردانِ خدا خواتین کے پارلر تباہ کرتے، مخرب اخلاق سی ڈیز پاﺅں تلے کچلتے اور کفار کو زبر دستی مومن بناتے یا تہہ تیغ کرتے نظر آتے ہیں۔ ان ہی مجاہدوں کی طرح جناب عاصم بھی بنت انگور سے لطف اندوز ہو کر غل غپاڑہ مچانے والوں کی پٹائی کر ڈالتے ہیں تو ایرصوئے فوراً اس کی سرزنش فرماتے ہیں کہ بیٹا یہ کام کسی اور یعنی پولیس اور عدلیہ کے کرنے کا ہے ۔کلام عاکف کے اس حصے کو میرے دوست جنید آزر نے اس طرح موزوں کیا ہے
عاصم!
مری سن،
میری طرف دیکھ،مری مان
اس راہِ جنوں خیز سے بہتر ہے پلٹ آ
یہ کاوش بے سود ہے
اس کاوشِ بے سود سے حاصل نہیں کچھ بھی
یہ بند گلی ہے
دیوار سے ٹکرا کے نہ کر اپنی جبیں خوں!
اس وحشتِ خود سر سے یہ بہتر ہے کہ باز آ!
یہ اشعار پڑھتے ہوئے میرے ذہن میں کچھ اخباری بیانات کی یاد تازہ ہوگئی جن میں اکثر بتایا جاتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں جانوں کی قربانی دی گئی ، کھربوں ڈالر کے مالی نقصان کے علاوہ سیاسی و سماجی ڈھانچہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔ یہ جان کر کہ میرے دل میں بسنے والے اقبالؒ کا ہم مشرب و ہم عصر قانون کو ہاتھ میں لینے کو کتنا مہلک خیال کرتا ہے ؟میں کسی قدر احساس کمتری میں مبتلا ہو گیا۔ اس صدمے نے مجھے نسبتاً آزادی کے ساتھ اقبالؒ کی ورق گردانی کی راہ دکھائی ۔ اس طرح کاخِ اُمرا کے درو دیوار ہلانے اور دہقان کو روزی سے محروم رکھنے والے کھیت کو جلانے پر کمر بستہ اقبالؒ کو میں نے ایک نئے زاویے سے دیکھا۔
ہمارا یہ دور اندیش بزرگ جب اپنے ایک پیشرو یعنی سرسید جیسے بزرگ کی لوح تربت سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوتا ہے تو اُسے آنے والے زمانے، اپنے خوابوں سے ابھرنے والے دیس میں حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ اور آئین سے کھلواڑ صاف نظر آتا ہے ، فرماتے ہیں
دہر میں عیش و آرام ، آئیںکی پابندی میں ہے
موج کو آزادیاں سامانِ شیون ہوگئیں
ایسا لگتا ہے کہ انھیںاپنی سرزمین پر فرقہ بندی کے جھگڑے، حتیٰ کہاس بنیاد پر دیے جانے والے دھرنے بھی صاف نظر آتے تھے ، اسی لیے فرمایا
وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں
چھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامہ محشر یہاں
وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے
دیکھ !کوئی دل نہ دکھ جائے تیری تقریر سے
اگر مجھے فلسفے میں کچھ درک ہوتی تو بالِ جبریل اور ضربِ کلیم سے بھی ضرور استفادہ کرتا ۔ تیل بیچ کر فارسی جاننے کی مشقت اٹھائی ہوتی تو کھنگال کر بتا دیتا کہ انھوں نے اس زبان میں بھی بہت کچھ کہہ رکھا ہے، جیسے ؎
حرفِ بد را برلبِ آوردن خطااست
کافرو مومن ہمہ خلقِ خدا است
اس مشق کے بعد جب میں سوچتا ہوں تو میری سمجھ میں آسانی سے آجاتا ہے کہ ہم اُس اقبالؒ کو دریافت کرنے میں کیوں ناکام رہے جس کے جلال میں بھی جمال کی کرنیں قلب وروح کو سرور بخشتی ہیں ۔ اس کا ایک سبب تو شاید یہی رہا ہو گا کہ غیرملکی استعمار سے نبرد آزما قوم کو اقبالؒ کی صورت میں ایک ایسی آواز مل گئی جو اُن کے دکھوں کی ترجمانی اور د شمنوں کے خلاف اعلانِ جنگ کر کے اُن کے دلوں میں جذبہ عمل بیدار کر رہی تھی ۔ اس مرحلے کی تکمیل یعنی قیامِ پاکستان کے بعد وہ اقبالؒ دریافت ہو جانا چاہیے تھا جو محمد عاکف ایرصوئے کی طرح عاصم کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا ۔ عہدِ غلامی میں اگر قوموں کی نفسیات میں بغاوت کے جذبات ابلتے ہیں اور سب کچھ فنا کردینے کی خواہش جنم لیتی ہے تو یہ فطری بات ہے لیکن آزادی کے بعد تو زمین و آسمان اور اس کے درمیان سب کچھ اپنا ہو جاتا ہے ، اس لیے جوشِ عمل کوبغاوت سے اپنے وطن کی حفاظت اور تعمیرکے جذبے میں منقلب ہو جانا چاہیے۔ایسا لگتا ہے کہ جنگِ آزادی لڑنے والی نسل ماقبلِ آزادی والی ذہنی کیفیت سے نکل نہ پائی ۔ ممکن ہے اس کا سبب مہم جوئی کے وہ واقعات رہے ہوں جن کے لیے فیض صاحب کو تخت اچھالنے اور تاج گرانے جیسی باتیں کرنی پڑیں ۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ جس طرح ہندوستان کا ایک طبقہ آج تک پاکستان کو برداشت نہیں کرپایا ، اسی طرح پاکستان کے اندر بھی ایسے لوگ پائے جاتے تھے جو بڑے فخر سے فرمایا کرتے تھے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہ تھے ۔اس طرح کے حالات میں حالت جنگ سے نکلنا یقیناآسان نہیں ہوتا ۔ طرفہ یہ کہ ہمارے خطے میں اوّلاً سوویت یونین اور اس کے پیچھے امریکہ بہادر نے قدم رنجا فرما کر جنگ و جدل کے میدان گرم کر دیے ۔ ایسے ماحول میں کیسے ممکن تھا کہ لوگوں کو وہ اقبالؒ بھول جاتا جو پلٹ جھپٹ کر لہو گرم رکھنے کی تلقین کیا کرتا تھا ۔
کوئی شبہ نہیں کہ زمانہ قیامت کی چال چل چکا مگر دیس تو آخر اپنا ہے، اس کے ساتھ جنگ و جدل کیسی ؟ آئیے ! اُس اقبال ؒ کو تلاش کریں جو حلقہ یاراں میں بریشم کی طرح نرمی کا درس دیتا ہے ۔ اقبالؒ کی اس دریافت نو کے لیے میں کم از کم اپنی حد تک تو شاعر کبیر محمد عاکف ایرصوئے کا شکر گزار ہوں اور خوش ہوں کہ ہمارے ماں جائے یعنی ترک بھائی محمد عاکف ایرصوئے کی دانش سے بہت کچھ سیکھ کر آج ترقی و کمال کے رہبر بنتے نظر آتے ہیں۔
<<<>>>